امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ ایک غیر معمولی، نادرۂ روزگار اورہمہ جہت شخصیت تھے۔ انھیں جہاں اسلامی علوم و فنون میں مجتہدانہ بصیرت حاصل تھی وہیں وہ دیگر مذاہبِ عالم اور تاریخِ عالم پر گہری ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور فلسفہ سے خاص شغف تھا۔مولان...
امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ ایک غیر معمولی، نادرۂ روزگار اورہمہ جہت شخصیت تھے۔ انھیں جہاں اسلامی علوم و فنون میں مجتہدانہ بصیرت حاصل تھی وہیں وہ دیگر مذاہبِ عالم اور تاریخِ عالم پر گہری ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور فلسفہ سے خاص شغف تھا۔مولانا آزاد ؒکی تحریروں کی ایک معجزاتی خصوصیت یہ ہے کہ مولانا کے علمی تبحر اور عالمانہ وزن و وقار کے باوجود ان کی تحریروں میں زاہدانہ یبوست اور بے رنگی یا واعظانہ خشونت نہیں ہوتی۔ پڑھنے والے کو ایک ایسی فرحت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے جو اس کو تحریر کے ساتھ کشاں کشاں لیے جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک سنجیدہ قسم کی بزلہ سنجی ہوتی ہے۔قدرت نے اس اخص الخواص شخصیت کو نہایت اعلیٰ ادبی ذوق بھی عطا فرمایا تھا، اگرچہ انھوں نے ابتدا میں کچھ اشعار کہنے کے بعد خود شاعری ترک کردی تھی لیکن ان کی غیر معمولی یادداشت نے عربی، فارسی اور اُردو کے ہزاروں منتخب اشعار اپنے خزانے میں جمع کر رکھے تھے اور وہ اپنی تحریروں و تقریروں میں انھیں برجستہ و برمحل خوب استعمال بھی کرتے تھے۔ اشعار کے انتخاب کا انھیں خاص سلیقہ تھا چنانچہ جس شعر کو انھوں نے چھو لیا وہ زندہ ہوگیا۔ بعض دفعہ تو یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے بالکل گمنام شاعروں کے گمنام اشعار کو بھی چن لیا اور وہ شاعر اور شعر دونوں زندہ ہوگئے، بعض دفعہ ایسی ا یسی غزلوں سے بھی انھوں نے کوئی شعر یا مصرعہ نکال لیا جن میں اس شعر یا مصرعہ کے علاوہ اور کچھ بھی لائق اعتنا نہیں نکلا۔ اُردو زبان و ادب کے تعلق سے مولانا کا ایک خاص کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کو ایک پُر شکوہ اسلوبِ بیان دینے کے ساتھ اس میں عربی و فارسی کے ان گنت الفاظ اور تعبیریں ہی نہیں بلکہ سیکڑوں فکر انگیز اشعار بھی رائج کردیے۔مولانا آزادؒ کی اردو تحریریں بکثرت عربی و فارسی اشعار سے مزین ہیں۔ ان کا ذوقِ سلیم جب اور جہاں اور جس طرح چاہتا ہے عربی و فارسی اشعارحسب ضرورت بطور شواہد نہایت سلیقے سے برمحل استعمال کرتا اور اربابِ ذوق کو محظوظ کرتا چلا جاتا ہے اور پھر دیر تک قاری کو لطف اندوز رکھتا ہے۔بہرحال موجودہ کتاب ’’لعل و گہر‘‘ایک خاص جدت کی حامل ہے اور تراجم کی رہِ عام سے مختلف ہے۔ مولانا آزادؒ اپنی تحریروں میں اردو، عربی اور فارسی کے اشعار بے تکلّفانہ استعمال کرتے چلے گئے ہیں۔ اظہرؔ ندوی نے ان تحریروں میں شامل عربی و فارسی اشعار کو یکجا کرکے نہ صرف اردو میں ان کا ترجمہ کیا ہے بلکہ منظوم ترجمہ کیا ہے تاکہ اصل تحریر سے ان کا میل برقرار رہے- مولانا آزاد کے استعمال کیے ہوئے فارسی اور عربی اشعار کا ترجمہ وہ بھی منظوم ترجمہ کرنے کے حوصلے کو قابلِ داد کہنا کافی نہیں ہے۔ اس کو تو بہتیرے حوصلہ مندوں کے حوصلوں کی آزمائش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مولانا اظہرؔ ندوی کی اس کاوش کی ستائش کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔ ان کی یہ تصنیفی کاوش اربابِ علم و ادب کے لیے ایک ادبی تلذذ کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اُمید ہے باذوق قارئین اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔